OYDV
وائرس
انفیکشن نشوونما کے کسی بھی مرحلے کے دوران ہو سکتا ہے اور پہلے سال کے پودوں کے بالغ پتوں پر سب سے پہلے واضح ہوتا ہے۔ ابتدائی علامات بے قاعدہ، زرد دھاریوں کے بطور نمودار ہوتی ہیں جو آہستہ آہستہ موزیک پیٹرن بناتی ہیں۔ جب علامات بڑھتی ہیں تو یہ پتے شکن آلودہ، نرم، نیچے کی طرف مڑے ہوئے اور بالآخر مرجھا جاتے ہیں۔ جب انفیکشن سنگین ہو تو یہ پتوں کے مکمل پیلے پڑ جانے کا سبب بن سکتا ہے اور پودوں کا ظاہری حلیہ رکی ہوئی نشوونما کی خبر دیتا ہے۔ بلب یا تو بنتے نہیں ہیں یا اگر بن جائیں تو حجم میں کم ہوتے ہیں اور قبل از وقت پھوٹ سکتے ہیں، مثلاً ذخیرے کے دوران۔ پیاز کے پودے جن کو بیج کی پیداوار کیلئے استعمال کیا جائے پھول کے تنوں، پھولوں اور بیجوں کی کمی اور اس کے ساتھ ساتھ بیج کے معیار میں کمی کا مظاہرہ کر سکتے ہیں۔ نمود کی شرحیں خاصی حد تک متاثر ہوتی ہیں۔
اس مرض کیلئے کوئی حیوی معالجات تاحال دستیاب نہیں۔ رکھ جوں کے خلاف علاج کیلئے تیم کا تیل 2٪ اور تیم کے بیج کی گری کا عرق (این ایس کے ای) 5٪ کے محلول استعمال کیے جا سکتے ہیں۔
اگر دستیاب ہو تو ہمیشہ حیوی معالجات کے ساتھ بچاؤ کی تدابیر والی ایک مکمل حکمت عملی اختیار کریں۔ وائرسز کی صورت میں کیمیائی علاج ممکن نہیں۔ رکھ جوں کے خلاف علاج میں ایمامیکتن بینزوایٹ، انڈوکساکارب یا این ایس کے ای شامل ہیں جن کے بعد ٹرائی ایزوفوس بھی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔
علامات ایک وائرس کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں جسے پیاز کا زرد بونا وائرس (او وائی ڈی وی) کہا جاتا ہے۔ یہ کھیت کے اندر پودے کے فضلے میں لمبے عرصے تک زندہ رہ سکتا ہے۔ عام طور پر وائرس کھیت میں موجود انفیکشن زدہ پودے کے اعضاء جیسے کہ بلبوں، سیٹس اور رضاکار پودوں کی وجہ سے پھیلتا ہے۔ اس کے میزبانوں کی رینج محدود ہے اور صرف ایلیم فیملی کے پودوں کی انواع تک محدود ہے (پیاز، لہسن، عسقلان اور کچھ سجاوٹی ایلیم)۔ یہ مرض متعدد رکھ جوں انواع کے ذریعے بھی غیر مستقل انداز میں منتقل ہو سکتا ہے (مثلاً مائزس پرسیکے)۔ یہ وائرس کو اپنے منہ کے اعضاء میں لیے پھرتے ہیں اور صحت مند پودے کا عرق چوستے ہوئے اس میں داخل کر دیتے ہیں۔ اکثر اوقات، یہ وائرس ایک ہی پودے کے اندر دیگر وائرسز کے ملاپ کے ساتھ پایا جاتاہے۔ انفیکشن پیداوار میں جتنی کمی کا باعث بنے اس کا انحصار اسی بات پر ہوتا ہے۔ مثلاً، جو پودے گندنے کی زرد دھاریوں والے وائرس سے بھی انفیکشن کا شکار ہوں ان میں پیداوار کے نقصانات زیادہ ہوتے ہیں۔