Botryosphaeria rhodina
فطر
آم کے درختوں کے فطر بوٹریوسفیریا رھوڈینا کے ساتھ ہونے والے انفیکشن کا اظہار خشک ٹہنیوں میں ہوتا ہے جو مکمل پت جھڑ کا سبب بن سکتا ہے۔ مرض کے پہلے مرحلے میں، چھالیں بد رنگ اور گہرے رنگ کی ہو جاتی ہیں۔ بعد ازاں مراحل میں، نو عمر ٹہنیاں بنیاد سے کمزور ہونا شروع ہوتی ہیں جو باہر کی طرف بڑھتا ہے حتی کہ پتے بھی متاثر ہو جاتے ہیں۔ جب نسیں بھوری ہو جاتی ہیں تو پتے اوپر کی طرف مڑ جاتے ہیں اور بالآخر درخت سے گر جاتے ہیں۔ سرے سے مرنے کے آخری مراحل میں، ٹہنیاں اور شاخیں گوند خارج کرتی ہیں۔ ابتدائی طور پر، چھوٹے گون کے قطرے نظر آتے ہیں مگر جب مرض بڑھتا ہے تو پوری شاخ یا تنا بھی اس سے ڈھکا ہو سکتا ہے۔ سنگین صورتوں میں، درخت کی چھال یا پوری شاخیں بھی مر کر چٹخ سکتی ہیں۔
انفیکشن زدہ درخت کے اعضاء کو فوراً ہٹا کر تباہ کر دیں۔ اردگرد کی کچھ صحت مند شاخیں بھی کاٹ دیں تاکہ مرض زا کی مکمل تباہی کا یقین ہو سکے۔
کاٹ چھانٹ کے بعد زخموں پر 0.3% ارتکاز کا کاپر آکسی کلورائڈ لگائیں۔ درختوں پر انفیکشن کی شرح کو کم کرنے کیلئے سال میں دو بار بورڈوکس سفوف لگائیں۔ فطر کش دوائی تھیوفینیٹ میتھائل پر مبنی اسپرے بی۔ رھوڈینا کے خلاف مؤثر پائے گئے ہیں۔ چھالوں کے بھنوروں یا سنڈیوں کے برمالوں کو درختوں پر بائی فینتھرن یا پرمیتھرن لگا کر قابو کریں۔
بوٹریوسفیریا رھوڈینا پودے کی انحطاطی بافت میں طویل عرصوں کیلئے زندہ رہ سکتا ہے۔ یہ تنے میں موجود زخموں اور شاخوں کے ذریعے آم کے درختوں کے عروقی نظام پر چڑھائی کر سکتا ہے۔ انفیکشن کا تکنیکی پہلو تاحال مکمل طور پر نہیں سمجھا جا سکتا ہے۔ ممکنہ داخلے کے مقامات حشرات (بھنوروں) کے پہنچائے گئے زخم یا پھر کھیت میں کام کے دوران ہونے والی میکانکی انجریاں ہیں۔ انفیکشن کا بنیادی مآخذ ٹہنیوں کی مردہ چھال میں موجود تخمک ہو سکتے ہیں۔ یہ نشوونما کے موسم میں درختوں پر رہتے ہیں اور کٹائی کے وقت پھیلتے ہیں۔ آئرن، زنگ اور مینگنیز میں کمی اس مرض کے پھوٹے کی حوصلہ افزائی کر سکتی ہے۔ پانی اور انجماد کا تناؤ بھی اس مرض سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ مرض سال کے کسی بھی وقت ہو سکتی ہے مگر نشوونما کے آخری مراحل کے دوران یہ سب سے نمایاں ہوتی ہے۔